سیر کے ارادے سے ہم مال روڈ پر چڑھے تو ہمارا ہنس ہنس کر برا جال ہوگیا کیونکہ دو عدد گھوڑے بدک کر مال روڈ پر آ نکلے تھے اور وہ بے لگام بھاگے جارہے تھے۔
وہ پوری رفتار سے بھاگ رہے تھے اور ان کی سڑک پر بریکیں بھی نہیں لگ رہی تھی ("پولو" کے گھوڑے تھے)، مجھے تو لگ رہا تھا کہ یونہی وہ کسی کار کے اوپر چڑھ جائیں گے اور ایسا ہوتے ہوۓ ایک کار بال بال بچ بھی گئی۔
ہمارے ساتھ برطانیہ کے کچھ سیاح بھی موٹر سائیکل پر سفر کر رہے تھے ان کی نظر میں پاکستان کی خوب عزت بنی ہوگی۔
تو یہ ہے جی شاہی قلعہ ،اسے کسی نے بھی بنایا ہو ہمیں کیا؟
ہمیں تو مصوری سے تعلق ہے۔اس قلعہ کو ایک تو زمانہ خستہ جال کر رہا ہے، دوسرا لوگ (آج کل بھی لوگ مغل آرٹ میں وہاں اضافہ کر رہے ہیں۔) تیسرا پاکستان ہارٹی کلچر اتھارٹی ۔ جی ہاں انھوں پودے لگانے کے لیے سارا قلہ اکھاڑا ہوا تھا۔
بیرونی دیوار پر مصوری
اس دیوار کا شمار دنیا کی نادر ترین دیواروں میں ہوتا ہے۔یہ قلعہ کی پوری دیوار اس طرح کی مصوری سے بھری پڑی ہے۔
وقت کی کمی کے باعث ہم بادشاہی مسجد تو نہ گئے مگر یہ مختلف زاویوں سے باہر سے لی گیں تصاویر۔
بارہ دری پہلی نظر میں مجھے کچھ خاص اچھی نہ لگی ۔ لیکن جب میں نے سر اٹھا کر چھت کو دیکھا تو وہاں بہت عمدہ کام ہوا تھا۔ جس کی جتنی تعریف کی جاۓ وہ کم ہے۔ ایسا کام تو آج کل بھی عورتیں سوئی سے نہیں کر سکتیں۔
میوزیم
یہاں تصویر کھنچنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ شیشہ کے فریم میں کسی سکھ کی تصویر(سکھ عجائب گھر)
علامہ اقبال کا مزار۔
یہاں مزے کی بات یہ تھی کہ ہم مزار پر پچھلی جانب سے وارد ہوۓ تو وہاں مجافظ نے ہیں ٹوکا کہ ہم جوتوں سمت وہاں(سیڑھیوں سے نیچے) گھوم رہے ہیں۔ جب میں سے اس سے پوچھا کہ تم نے بھی تو بوٹ پہنے ہوۓ ہیں تو وہ ہنس دیا کہ ہمارے بوٹ متبرک ہیں۔(اس مزار کی پچھلی جانب لوگ کرسیاں "ڈا" کے جوتوں سمیت بیٹھے ہوۓ تھے۔ خیر ہم نے محافظ سے معاذرت کی کہ ہمیں نہیں معلوم تھا۔
رنجیت سنگھ کی آخری آرام گاہ جس میں مسلے نہیں داخل ہو سکتے۔
آخری نظر میں
لاھور عجائب گھر
مشہور زمانہ، پھڈوں میں آزمائی ہوئی زم زمہ توپ۔
31 کا تو نہیں مگر 30 تاریخ کا ضرور آخری سورج ہے۔
الودع الودع ،
نئی صبح کی نوید کے ساتھ۔