November 12, 2005

اردو پنجابی کا تقابلی احساس

احسان دانش کی کتاب جہان دانش سے اقتباس:

لاہور میں میرےمحلے کے جو لوگ کاندھلہ جاتے تھے وہ بعص اوقات شیخی میں ایسی ثقیل پنجابی بولنے لگتے جس سے دوسروں پر یہ اثر پڑے کہ پنجابی زبان بھی جانتے ہیں جو مشکل اور اجنبی زبان ہے۔ لیکن لاہور میں آکر میں نے اور ہی بات پائی۔ یہاں کی زبان پر مجھے بلکل بھی حیرت نہیں ہوئی اور نہ کوئی مشکل پیش آئی جس سے الجھن ہوتی کیونکہ یہاں کا چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا دکاندار اردو بولتا تھا اور عموما گاہکوں سے بھی اردو ہی میں لین دین کا رواج روا رکھتا تھا۔

البتہ جب دور دراز کے دیہات کا کوئی جانگلی آجاتا اس وقت پنجابی کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔ حالانہ لاہور کی پنجابی بھی اس کے لیے اردو کے برابر ہی تھی۔ بلکہ اردو کو وہ لوگ لاہور کی پنجابی سے زیادہ سمجھتے تھے کیونکہ دیہات میں اسکولوں کے استاد، ڈاکخانوں کےکارکن، پٹواری اور پولیس کے اکثر لوگ اردو ہی سے کا چلاتے۔

لاہور میں ہرمزدور خواہ وہ پنجابی تھا یا راجپوتانہ کا، سندھ کا تھا یا پشاور کا اردو میں ہی بات چیت کرتا تھا۔ کیونکہ یہی ایک ایسی رابطے کی زبان تھی جسے مشترکہ طور پر تھوڑا سب ہی جانتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ معیاری اردو نہ نہیں تھی مگر چھوٹی دوکانوں پر حساب کتاب اور خط و کتابت سب اردو میں ہی ہوتی تھی کبھی کبھی جب دو پنجابی آپس میں پنجابی بولتے تو بعص الفاظ نامانوس سے معلوم ہوتے، میں ان کا مفہوم متعلقات کے آثار اورو قرائن اور محل و قوع کے تقاضے سے نکال لیتا بعد میں ایک ایک دو دو لفظ سیکھ کر مجھے اس پنجابی پر بھی عبور ہوگیا جو روز مرہ یہاں رائج تھی اور اس میں کوئی ایسی پیچیدگی بھی دکھائی نہیں دی کیونکہ پنجابی میں اردو کے ہزاروں الفاظ پاۓ جاتے ہیں۔ یہ اور بات ہے یہ بعض بدلی ہوئی صورت میں ہیں۔

اس طرح پنجابی کے ہزاروں مصاور اردو میں آۓ ہيں اور ان سے صاف ظاہر ہے یا اردو زبان کی ریڑھ کی ہڈی پنجابی زبان ہے جو سینکڑوں برس میں اس صورت ميں ڈھلی ہے۔ اب تو الحمد اللہ میں پنجابی لٹریچراور شاعری کو یہاں سے عام پنجابی سے زیادہ سمجھتا ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک فقرہ بھی بول نہں سکتا۔ جس کا سبب یہ ہے کہ دن رات کا واسطہ اردو دان طبقے سے رہتا ہے۔ یہ بات پائہ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ پنجابی زبان کی ترقی یافتہ صورت کا نام اردو ہے۔ رہا یہ سوال کہ پنجابی زبان کا ماخذ کیا ہے؟ یہ اہل تحقیق کا کام ہے۔

سردست اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ پنجابی کے تنے سے پھوٹی ہو ‎شاخوں اور پھولوں پھلوں کا نام اردو رکھ لیا گیا ہے۔ پنجابی زبان کی تحقیق سے اردو کے ماخذوں کا پتہ چلتا ہے اور یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ اردو کی مخالفت میں پنجابی زبان کا اصرار کرنا جہاں اردو کی ترقی میں تاخیر کا باعث ہے وہیں پنجابی زبان اور معاشرے کو دو سو برس پیچھے لے جاتا ہے جو نہ اس دور کا تقاضا ہے اور نہ ارتقا کی ہمقدمی، ہمیں تو اب سائنس کی ترقی کا ساتھ دینا ہے وہ جس طرح بھی ممکن ہو اس کے ہرکے یہ معنی ہرگز نہیں کہ میں دہلی اور لکھنؤ کی زبان پر اصرار کر رہا ہوں ہرگز نہیں! میں اس اردو کی ترویج کا قائل ہوں جو ہمارے آج کے معاشرے اور علوم کی متحمل ہو سکے کہیں اس کی وسعت اصطلاحات سے عاجز نہ ہو بلکہ اصطلاح سازی اس کی خصوصیت ہو۔ اک ذرہ سی توجہ درکار ہے کام کوئی مشکل نہیں۔

November 08, 2005

NATO لاہور میں

صبح 11-12 بحے کے درمیان میں مال روڈ پر جا رہا تھا تو پولیس والے نے برقی اشارے بند کر دیے۔ میں سمجھا کہ شاید کوئی افسر وغیرہ جا رہا ہوگا۔ مگر دیکھا تووہ 4,5 ملٹری کے ٹرک تھے۔

پہلے میں انھیں پاکستانی فوجی ہی سمجھا کیونکہ ان کے ٹرکوں پر کوئی واضح نشان نہیں تھا۔ لیکن جب فوجیوں کی شکلیں دیکھیں تو وہ اجنبی اجنبی محسوس ہوئیں، (ان کے چہرے چکور تھے، جبکہ پاکستانیوں کے اکثر تکونی ہوتے ہیں )۔غالبا وہ اس وقت ائرپورٹ سے آرہے تھے۔

غور سے دیکھا تو ٹرک پر چھوٹا سا لکھا ہوا تھا نیٹو ۔ یہ ٹرک مکمل طور پر دھانپے گیے ہوۓ تھے۔ جس کی وجہ سے یہ دیکھنا ممکن نہیں تھا کہ ان کے اندر کیا ہے۔ صرف ڈرائیور اور اس کا ساتھی نظر آرھے تھے۔

اب سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ یہ لاہور میں کیا کرنے آۓ ہیں۔

November 03, 2005

عید سعید

اب تو میرا کچھ لکھنے کو دل ہی نہیں کرتا اور نہ ہی میرا کسی چیز پر تبصرہ کرنے کو دل کرتا ہے۔
ایک پل میں ساری دنیا ہی تبدیل ہو گئ۔

میں سوچتا ہوں کے رمضان بابرکت مہینہ ہے۔،اس میں ۔۔

ابھی لکھنے بیٹھا تو دوست کا فون آگیا ، سارا موڈ خراب ہوگیا ہے۔۔۔


بحرحال سب کو عید مبارک، اللہ ہم سب کو اپنے حفظ و ایمان میں رکھے۔