August 28, 2005

میں اور اخبار۔۔۔

میرا اور اخبار کا رشتہ بہت پرانہ ہے۔ (میری عمر کے لحاظ سے) 95،96 میں میں نے باقاعدہ اخبار پڑھنی شروع کی جواب تک کسی نہ کسی طرح جاری ہے۔میرا عمر کے ساتھ سا تھ اخبار پڑھنے کا طریقہ بھی بدلتا گیا ہے۔

شروع شروع میں ، میں صرف تصویریں ہی دیکھتا تھا۔ ان دنوں میں اکثر روزنامہ خبریں اور پاکستان میرے ہاتھ لگتے تھے۔

پھر تھوڑی سی میرے میں تبدیلی آئی اور میں نے اخبار کو پڑھنا بھی شروع کر دیا۔ان دنوں میں ،میں زیادہ تر روزنامہ نوائے وقت اور جنگ پڑھتا تھا۔

پھر آہستہ آہستہ میںنے اخبار اس قدرپڑھنا شروع کر دیا کہ جب تک ایک ایک سطرح نہ پڑھ لیتا چین نہ آتا۔اور دن میں مختلف وقفوں سے پڑھتا۔صرف نوائے وقت پڑھتا اور اس میں عباس اطہر کے "کنکریاں" کے علاوہ سب مستقل کالم نگاروں کےکالم بھی پڑھتا تھا۔

پھر ایک اور تبدیلی یہ آئی کہ میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ روز اخبار کے کالموں میں ایک ہی رونا ہوتا۔"۔۔۔وہ لوٹ کے لے گیا،۔۔۔ وہ لوٹ رہا ہے۔"اس دن کے بعد سے میں نے سب کالم پڑھنے چھوڑ دیے ہیں۔اب میں صرف شہ سرخیں ہی پڑھتا ہوں ،اورچند منٹ میں خبر مجھ پر واضح ہو جاتی ہے۔بقیہ پڑھنے کا تو سوال ہی نہیں ہے۔کیونکہ میں نے صرف خبر ہی پڑھنی ہوتی ہے اس لیے آج کل تمام قسم کے اخبارات پڑھ لیتا ہوں۔

3 comments:

Shoiab Safdar Ghumman said...

معلوم ہوتا ہے کہ سرخیوں کے بعد آپ دوبارہ تصاویر کے مطالعہ کی طرف گامزن ہو جائے گے اور پھر اس سے بھی نجات پا لے گے۔۔۔۔
یعنی جھتوں دی ۔۔۔۔۔۔(خالی جگہ خود پر کرے) اوتھے آن کھلوتی۔۔۔
یاد رہے یہ محاورہ ہء آپ پر کوئی جملہ نہیں سر

Saqib Saud said...

:) ہا ہا !
نہیں ایسا نیہں ہوتا۔
حالات میں یکسانیت آ گئی ہے۔بندے کو سرخی پڑھ کر اندازہ ہو جا تا ہے۔

Shuaib said...

میں گذشتہ آٹھ سالوں سے مختلف اخباروں میں کام کرچکا ہوں مگر تب سے اخبار پڑھنا ہی چھوڑ دیا۔