احسان دانش کی کتاب جہان دانش سے اقتباس:
لاہور میں میرےمحلے کے جو لوگ کاندھلہ جاتے تھے وہ بعص اوقات شیخی میں ایسی ثقیل پنجابی بولنے لگتے جس سے دوسروں پر یہ اثر پڑے کہ پنجابی زبان بھی جانتے ہیں جو مشکل اور اجنبی زبان ہے۔ لیکن لاہور میں آکر میں نے اور ہی بات پائی۔ یہاں کی زبان پر مجھے بلکل بھی حیرت نہیں ہوئی اور نہ کوئی مشکل پیش آئی جس سے الجھن ہوتی کیونکہ یہاں کا چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا دکاندار اردو بولتا تھا اور عموما گاہکوں سے بھی اردو ہی میں لین دین کا رواج روا رکھتا تھا۔
البتہ جب دور دراز کے دیہات کا کوئی جانگلی آجاتا اس وقت پنجابی کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔ حالانہ لاہور کی پنجابی بھی اس کے لیے اردو کے برابر ہی تھی۔ بلکہ اردو کو وہ لوگ لاہور کی پنجابی سے زیادہ سمجھتے تھے کیونکہ دیہات میں اسکولوں کے استاد، ڈاکخانوں کےکارکن، پٹواری اور پولیس کے اکثر لوگ اردو ہی سے کا چلاتے۔
لاہور میں ہرمزدور خواہ وہ پنجابی تھا یا راجپوتانہ کا، سندھ کا تھا یا پشاور کا اردو میں ہی بات چیت کرتا تھا۔ کیونکہ یہی ایک ایسی رابطے کی زبان تھی جسے مشترکہ طور پر تھوڑا سب ہی جانتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ معیاری اردو نہ نہیں تھی مگر چھوٹی دوکانوں پر حساب کتاب اور خط و کتابت سب اردو میں ہی ہوتی تھی کبھی کبھی جب دو پنجابی آپس میں پنجابی بولتے تو بعص الفاظ نامانوس سے معلوم ہوتے، میں ان کا مفہوم متعلقات کے آثار اورو قرائن اور محل و قوع کے تقاضے سے نکال لیتا بعد میں ایک ایک دو دو لفظ سیکھ کر مجھے اس پنجابی پر بھی عبور ہوگیا جو روز مرہ یہاں رائج تھی اور اس میں کوئی ایسی پیچیدگی بھی دکھائی نہیں دی کیونکہ پنجابی میں اردو کے ہزاروں الفاظ پاۓ جاتے ہیں۔ یہ اور بات ہے یہ بعض بدلی ہوئی صورت میں ہیں۔
اس طرح پنجابی کے ہزاروں مصاور اردو میں آۓ ہيں اور ان سے صاف ظاہر ہے یا اردو زبان کی ریڑھ کی ہڈی پنجابی زبان ہے جو سینکڑوں برس میں اس صورت ميں ڈھلی ہے۔ اب تو الحمد اللہ میں پنجابی لٹریچراور شاعری کو یہاں سے عام پنجابی سے زیادہ سمجھتا ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک فقرہ بھی بول نہں سکتا۔ جس کا سبب یہ ہے کہ دن رات کا واسطہ اردو دان طبقے سے رہتا ہے۔ یہ بات پائہ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ پنجابی زبان کی ترقی یافتہ صورت کا نام اردو ہے۔ رہا یہ سوال کہ پنجابی زبان کا ماخذ کیا ہے؟ یہ اہل تحقیق کا کام ہے۔
سردست اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ پنجابی کے تنے سے پھوٹی ہو شاخوں اور پھولوں پھلوں کا نام اردو رکھ لیا گیا ہے۔ پنجابی زبان کی تحقیق سے اردو کے ماخذوں کا پتہ چلتا ہے اور یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ اردو کی مخالفت میں پنجابی زبان کا اصرار کرنا جہاں اردو کی ترقی میں تاخیر کا باعث ہے وہیں پنجابی زبان اور معاشرے کو دو سو برس پیچھے لے جاتا ہے جو نہ اس دور کا تقاضا ہے اور نہ ارتقا کی ہمقدمی، ہمیں تو اب سائنس کی ترقی کا ساتھ دینا ہے وہ جس طرح بھی ممکن ہو اس کے ہرکے یہ معنی ہرگز نہیں کہ میں دہلی اور لکھنؤ کی زبان پر اصرار کر رہا ہوں ہرگز نہیں! میں اس اردو کی ترویج کا قائل ہوں جو ہمارے آج کے معاشرے اور علوم کی متحمل ہو سکے کہیں اس کی وسعت اصطلاحات سے عاجز نہ ہو بلکہ اصطلاح سازی اس کی خصوصیت ہو۔ اک ذرہ سی توجہ درکار ہے کام کوئی مشکل نہیں۔